Ticker

10/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

کشن گنج"بہار" سے ڈالی گنج 'لکھنؤ"تک

 کشن گنج(بہار) سے ڈالی گنج (لکھنؤ)تک



دبستانِ زندگی  71قسط ٢


ادھورے پروگرام سے  واپسی

آل انڈیا امامس کونسل کا دس روزہ تربیتی کیمپ دو روز قبل ہی شروع ہو چکا تھا، ہم تاخیر سے پہنچے تھے، صبح بعض مجبوری اور احباب کی اچاٹ طبیعت نے وہاں رکنا تنگ کر دیا، میری طبیعت بھی صرف ٹہلنے پر ہی آمادہ ہوئی تھی، لیکن وہاں کے رازدارانہ نظام، حد درجہ احتیاط نے ہمیں تشویش میں مبتلا کر دیا، پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی ذیلی تنظیم ہونے پر ان کا اعتماد مضبوط ہوتا اور مشن حصولِ حق کو اپنا ہدف مانتے، پی، ایف آئی حکومت کی نظر میں کھٹکنے والی سرِ فہرست تنظیم ہے، اور ایسی مشکوک و متنازع جماعت سے میری وابستگی خود میرے لیے حیرت انگیز تھی، اب میں نے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا تھا، حالانکہ وہ ہریانہ میں اپنی جماعت کو دراز و وسعت دینے کے خواہاں تھے.نیز صبح ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ آپ کا کال ریکارڈ کیا جا رہا ہے، اس ہیبت ناک خبر صاعقہ نے اب ایک ایک منٹ میرے لیے امتحان کی گھڑی بنا دی، واپسی کی تیاری فوری طور پر کی گئی.

*اے ایم یو کشن گنج کیمپس*

وہاں سے نکلتے ہی ایک لائبریری کی وزٹ کی اور کشن گنج بہار کے ایم پی مولانا اسرار الحق قاسمی کی محنت کا صلہ علی گڑہ کی شاخ کا رخ کیا، پورے کشن گنج میں ہر دکان پر آویزاں بورڈ میں اردو زبان کا ہونا لازمی تھا،ایک قصبہ نما یہ شہر بڑی بڑی بلڈنگوں سے خالی تھا،پورے بہار میں تعمیرات بجھی بجھی، بے آب سی نظر آتی ہیں، جن علاقوں سے ہمارا گزر ہوا، ہم نے لوگوں کو ظاہری اسلامی علامات سے یکسر خالی پایا. لباس و چہرے سے اسلامی علامات پوشیدہ ہی تھی.ہم جامعہ کیمپس پہنچے تو سوائے چار دیواری اور احاطہ کے اندر گھاس چرتی گائے، اور دو چار بچوں کو جمنا ریتا میں کھیلتے دیکھا.یہ کیمپس شہر سے کچھ فاصلہ پر واقع ہے،

*جانشین مولانا اسرار سے ملاقات*

راستے صاف ستھرے تھے، مبارک بھائی نے مولانا مسعود اسرار ندوی بنِ مولانا اسرار الحق سے رابطہ کیا،انہوں نے راستے میں ایک گاؤں میں بلا بھیجا،وہ دورہ کر رہے تھے، موصوف خندہ پیشانی سے ملے،ضیافت کی اور اپنے والد کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کا عزم ظاہر کیا،لوگ ان کے پاس آتے جاتے اور مصافحہ کرتے جاتے، وہ اپنی مسکراہٹ سے دل دادی کرتے ، ہمارے کشن گنج کے جامعہ کیمس اور تعلیمی نظام پر تبادلہ خیال ہوا، آخر میں ان کو میوات آنے کی دعوت دے کر اجازت چاہی،گاڑی تک وداع کہنے آئے، انہیں بھی نکلنا تھا لیکن پہلے ہمیں رخصت کیا، ان کی ذات سے سادگی و اپنائیت جھلکتی تھی. رب خوش باش رکھے.جگہ جگہ کشن گنج حلقہ میں مجلس اتحاد المسلمین پارٹی کے بینر درختوں سے لٹکے ہوئے تھے، لوگوں کے تاثر اسدالدین اویسی کے متعلق یہاں مثبت ہیں.ہم مغرب کی نماز کے لئے ایک مسجد میں داخل ہوئے امام صاحب سورہ تکاثر میں صریح غلطیاں کر رہے تھے لحنِ جلی و خفی سے نماز کا ڈھیر کر رکھا تھا.ہم نے آگے جاکر دوسری مسجد میں جا کر نماز ادا کی.

*شبینہ ارریا میں*

درمیانِ راہ  ہائے وے سے سات کلو میٹر دور رحمت گنج میں ہمارا عشائیہ طے تھا اکرام بھائی کے ہم درس کا یہ گھر تھا، ہم نے عشاء کی نماز ادا کی، وہاں ہمیں ایک خوبصورت سنجیدہ نوجوان عالم دین مولانا Mohd Mukarram سے ملے، انہوں نے بتایا کہ اب ہمارے یہاں ہوڈ مچی ہے ایک دوسرے سے اچھا گھر بنانے کی ورنہ آج سے صرف چھ سال قبل یہاں پورا محلہ پھوس پوس ہوتا اور سارے گھر بانس بلیوں کے ہوتے اور ان میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا تھا، سوائے جگہ کی وسعت و تنگی یا رکھ رکھاؤ کے،مزید دورانِ گفتگو اس بات کا انکشاف ہوا کہ وہ ایک محفلِ قرات و نعت کرنا چاہتے ہیں لیکن گجرات کے قراء و یوپی کے نعت خواں حضرات کی موٹی موٹی رقم آڑ بنی ہوئی ہے، ہم سے گزارش کی کہ آپ کوئی راہنمائی کریں تو ہم نے میوات کے قراء اور نعت خواں صاحبان پر اعتماد کرتے ہوئے ان سے آدھی ادھوری حامی بھر لی، اکرام بھائی کے ساتھی تو قریب ہی ایک شہر جوکی ہاٹ میں جماعت میں نکلے ہوئے تھے اور ان کے والد کی محبت اور علماء سے ان کی عقیدت دیکھنے لائق تھی، بِچھے جاتے تھے، نیازمندانہ و عقیدت مندانہ رخ اختیار کرتے، ہماری ظاہری شکل و شباہت اور پوشاک کو دیکھ لوگ کتنا ادب و احترام کرتے ہیں، اس کا احساس بارہا ہوتا رہتا ہے.مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی،بہار کی لڑکیوں کی باہر شادی کا مسئلہ بھی آیا، میرے اس سوال پر کہ باہر لڑکیوں کو کیوں بیاہتے ہیں؟چونکہ لڑکیوں کا ریشوں زیادہ اور آمد کم ہے نیز باہر کسی اچھے گھر میں رشتہ طے پانا بھی یہاں اس گھر کے لیے عزت کا باعث ہوتا ہے اور صاحب آخر میں ایک باپ اپنی لڑکی کو خوش دیکھنا چاہتا ہے اسے پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہے، کِلَستا، گھٹتا اور تڑپتا نہیں دیکھنا چاہتا... انہوں نے جواب دیامیں نے جہیز کے بارے میں سوال کیا تو بتایا کہ کوئی مانگ لیتا ہے، کوئی نہیں مانگتا! بس موقع کی بات ہوتی ہے.چاول، دیسی مرغ،انڈا اور بھی کئی مختلف ڈشز ہمارے سامنے رکھی تھی، گھر میں قدیم دور کی تمام اشیاء موجود تھی، اناج کی ٹنکی، رسوئی، گھر سب مٹی کا بنا ہوا تھا، صفائی ستھرائی خوب تھی.

*ایک بڑا حادثہ*

  • دس بجے ان مخلص میزبانوں سے جدا ہو رہے تھے، گاڑی ہائے وے پر آتے ہی رفتار پکڑ گئی، فجر کی نماز بستی میں مولانا نظام الدین کے یہاں پڑھنے کا ارادہ کر لیا، اور تیزی سے بستی کی جانب بڑھنے لگے، رات چار بجے کی قریب ڈوبریا برج پر چل رہے تعمیری کام سے ایک راستہ ادھورا تھا وہاں سے ہم کو ایک ہی سڑک میں ضم ہونا تھا لیکن عدمِ توجہی اور اجنبیت سے ایسا نہیں ہوا اور گاڑی نے رخ سیدھا رکھا، بڑی مشکل سے آخری وقت گاڑی رکی، مبادا ہم اس بہار کی ندی کے نذر ہو جاتے

.صبح تک یہیں ٹھرے نمازِ فجر بھی قضاء ہو گئی، صبح ایک مکینک کو لائے اور ظہر تک بستی مولانا نظام الدین قاسمی کی ضیافت میں پہنچے، جا کر غسل کیا اور چائے پیکر نمازِ قضا و ادا کر آگے بڑھ چلے یہاں سے لکھنؤ سو کلو ڈیڑھ سو کلو میٹر رہ جاتا ہے،



*چمنِ مونگیری میں*

 مغرب کی نماز ہم نے دارالعلوم ندوة العلماء پہنچ کر ہی ادا کی، بھوکے، ٹوٹے تھکے جسموں کے ساتھ ہم دارالعلوم کی خوبصورت و دلکش مسجد سے روحانی و جسمانی قوت حاصل کر رہے تھے.پہنچتے ہی ندوہ کے مایہ ناز استاذ مولانا نذر الحفیظ صاحب ندوی سے ملاقات ہوئی، نماز بعد ہم نے حضرت ناظم صاحب سے ملاقات کا ارادہ کیا اور مہمان خانہ پہنچے.

*ایک خواب بطور جملہ معترضہ* 

بات ہے فراغت کے بعد کی، گھر والوں کا ایک سال جماعت میں بھیجنے کا اصرار تھا، اور میرا تدریس سے وابستگی کا من تھا، میری زندگی کا ایک طویل حصہ نیک خوابوں کا ہے،میں نے خواب دیکھا کہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے استفسار کیا!تعریف تم کیا کر رہے ہو؟میں نے خواب ہی میں حیرت-زدہ سوال کر دیا!حضرت آپ کو میرا نام معلوم ہے؟کیوں نہیں! کیا تم نے یہاں نہیں پڑھا؟تسلی بخش سوال کر دیا جی بالکل! میں نے بھی جواب دے دیا.پھر میں نے کہا کہ حضرت پڑھانا چاہتا ہوں لیکن کوئی ادارہ قبول ہی نہیں کرتا!پھر حضرت نے اپنے قریب بیٹھے ایک باریش خوبرو نوجوان کو "بیٹے" سے خطاب کیا اور میرا نمبر نوٹ کرنے کو کہا، مجھے تب بھی حیرت ہوئی، میں نے پھر سوال کر دیا حضرت آپ کی اولاد نرینہ تو ہے نہیں؟فرمایا یہ تو ہے!مسکراتے ہوئے جواب دیا اور کھڑے ہو کر چلے گئے.اس خواب نے مجھے تعلیم و تدریس کا اشارہ کیا اور ربِ کائنات نے ایک ادارہ کو ہمارا کر دیا. دعائیں ہیں بزرگوں، تمنائیں ہیں عزیزوں کی، فضل ہے اللہ جل و علا کا.

اب ہم پہلی فرصت میں صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و ناظم دارالعلوم ندوة العلماء مرشد الامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم سے روبرو ہونے کے مشتاق تھے. سو کشاں کشاں ہمارے ڈگمگاتے قدم ان کی قیام گاہ مہمان خانہ کی جا‌نب بڑھنے لگے...... جاری 

محمد تعریف سلیم ندوی

بروز ہفتہ 2021-2-20

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے