Ticker

10/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

ایک ہستی جو سب کو جمع کر گئی

*ایک ہستی جو سب کو جمع کرگئی

*دبستانِ زندگی 72* 



ہمیں چراغ سمجھ کر بجھا نہ پاؤ گے 

ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں 

راحت اندوری


یہ میری مختصر سی تین سالہ تدریس زندگی کا پہلا موقع تھا جب ایک اسٹیج پر میواتی علمی ہستیاں، آفتاب و ماہتاب،ستاروں کا جھرمٹ و سیاروں کا ہجوم بیک وقت زمین پر اتر آئے ہوں.

موقع تھا مفتیء اعظم میوات مفتی رشید احمد مالپوری علیه الرحمة پر میوات کے علمی، تبلیغی ، تاریخی مجلہ "رہنمائے میوات" کے مفتی موصوف کے نام خصوصی شمارہ شائع  ہونے کی تقریبِ رونمائی کا.

مجلس جامعہ رحمانیہ اٹاوڑ موڑ پر نہایت منظم و طریقے سے منعقد کی گئی تھی. 

میوات کے معمر ترین بزرگ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب اٹاوڑی أطال اللہ بقاءہ، عظیم صاحبِ نسبت بزرگ میانجی محمد رمضان مالب خلیفہ و مجاز شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی طیب اللہ ثراہ ،علماء ،ائمہ، اصحابِ اہتمام و انتظام ، اہل قرطاس و قلم ایک شامیانہ تلے جمع ہو چکے تھے، اور ہوتے بھی کیوں نہ؟ یہ اسی شخصیت کے نام پر ہی ہو سکتا تھا، مجھے یاد ہے کہ نیلسن منڈیلا کی وفات کے موقع پر جس قدر امراء و صدور یکجا ہوئے تھے، آج تک شاید کوئی بھی موقع دو سو سے زائد ممالک کے ذمہ داران کو اکٹھا نہ کر سکا تھا چونکہ یہ سیاہ فام ہستی انسانی حقوق کی جدوجہد میں اس دنیا سے رخصت ہوئے.

یہی کاز حضرت مفتی صاحب نے گوت پال کی نخوت و برتری کو کچلنے کے لئے سنبھالا تھا.

گیارہ بجے شاندار کلام اللہ شریف سے اس بزمِ یادگار کی ابتداء ہوئی، نعت خواں نے فضا معطر کی، حمد و ثنا کے معاً بعد تاثراتی کلمات کا آغاز خطیبِ میوات مولانا حکیم الدین صاحب دامت برکاتہ مہتمم مدرسہ الیاسیہ اشاعت العلوم کھڑکھڑی نے یوں کہتے ہوئے کیا کہ حضرت مفتی صاحب بلا شبہ مفتیء اعظم تھے،پھر مفتی زاہد حسین صاحب قاسمی کو مدعو کیا گیا،آپ کے والد کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، آپ طبیعت بستہ تھے، ذہن و دماغ میں انقباض تھا، آپ ابھی صدمہ سے ابھرے نہیں ہیں، اس کیفیت کو تمام حاضرین نے محسوس کیا، طبیعت کی شوخی افتاد ہو گئی تھی، چند کلمات کے بعد معذرت چاہ لی،

اب ڈائز پر تشریف لائے حضرت مولانا شیر محمد امینی دامت برکاتہم ،اپنے شیری و دلکش انداز میں اپنی بات کو رکھنے کا سلیقہ و ہنر جو مولانا کو حاصل ہے، وہ ان کا امتیاز ہے،

ان کے بعد یکہ بعد دیگرے حضرت مولانا خالد نیاز صاحب دامت برکاتہم سابق صوبائی صدر جمعِیت متحدہ پنجاب  ، حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب ترواڑہ دامت برکاتہم صوبائی صدر جمعِیت متحدہ پنجاب، مولانا یامین شیخ الحدیث مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد، قاضی شہر آگرہ مفتی عبدالقدوس صاحب دامت برکاتہم نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا.

منجملہ مقررین نے مفتی صاحب کے نمایاں وصف متبع شریعت ہونے کو یکساں طور پر بیان کیا. ہر مسئلہ کو شریعت کے ترازو میں تولنا، جانچنا و پرکھنا ان کا وصفِ خاص تھا. 

لیکن شیخ الحدیث و مہتمم مدرسہ میل گھیڑلا حضرت مولانا راشد صاحب دامت برکاتہم نے عطر و خلاصہ پیش کیا، وہ موتیوں میں ہیرے کے مانند تھے، انہوں نے حسبِ معمول مرحوم مفتی صاحب کی زندگی کو سیرتِ نبوی کے ترازو سے پرکھا اور تین اہم نکات کی نشاندہی کی اول علم میں رسوخ جو کہ ہر انسان کی معراج ہے، ثانیاً نافعیت..! مفتی صاحب کی ذات تو وداع کے بعد بھی ان کی کتابوں سے نافع ہے، ثالثاً اخلاق..! کہ ہر آنے والا اپنے کو قریبی تصور کرے.

ان تینوں صفات کا مرقع حضرت مفتی مرحوم کی ذات تھی.

مولانا راشد صاحب نے نوجوان علماء کو بھی اپنے مطالعہ کو بڑھانے اور علمی غور و خوض کرنے کی نصیحت کی، مولانا محترم کی گفتگو سے دقیق النظری،وسیع الفکری،سیر چشمی، مطالعہ کی وسعت ظاہر ہو رہی تھی. آپ کا انداز بیانِ غیر رسمی و غیر روایتی تھا، اسی منفرد انداز کے لیے انہیں جانا و پہچانا جاتا ہے.


علاوہ بریں مولانا خالد اسحاق صاحب ،مفتی ابراہیم صاحب سوڑاکا ،مفتی ثناء اللہ سوڑاکا، مفتی زہیر و عمر ریٹھوڑا ،مفتی اعظم و شاعر مفتی یوسف ، مولانا مبارک و یوسف حیدر آلی میؤ ،مفتی ضیاء الحق صاحب قاسمی، مولانا صابر قاسمی،مفتی خورشید اونمرہ.

اور میزبان محترم جانشینِ مفتیء اعظم حضرت مفتی مسعود صاحب اپنی پوری منتظمہ کمیٹی کے ساتھ نیز رسالہ رہنمائے میوات کے اہل ادارت و اہتمام موجود رہے.

پورا مجمع علماء کرام و ائمہ عظام کا تھا سب کا احاطہ و شمار ممکن نیست،

لیکن پروگرام کا سب سے پیارا رخ تھا حضرت مفتی صاحب مرحوم کی قلمی کاوشوں کی رونمائی، آپ کی کتابوں کو مسجد میں سلیقہ و قرینہ سے رکھا گیا تھا، کم و بیش دو سو سے زائد کتب و رسائل کی فہرست چسپاں کی گئی تھی، یہ علمی ترکہ و ورثہ ہے جو انہوں نے چھوڑا،مفتی صاحب کی یہ خدمات میرے لیے حوصلہ کن و ہمت افزا ہے، تاکہ ہم بتا سکیں کہ ہم تبلیغی گھٹڑی بردار ہی نہیں، قلمبرداری میں بھی ید طولیٰ رکھتے ہیں. 

ان کے قلم کی جولانی کا صلہ تھا کہ جب حضرت مسیح الامت کی سوانح حیات لکھنے کی نوبت آئی تو باتفاق آراء جمیع منتسبین و منسلکین نے حضرت مفتی صاحب مرحوم پر اعتماد کیا، جو خوش اسلوبی سے انجام بھی پایا. 

مفتی صاحب نے جو اثاثہ چھوڑا ہے اسے خریدا جائے، ناز کیا جائے،سرور و حبور کو تن من میں گھولا جائے.



بہت سے لوگ کہ جو حرف آشنا بھی نہیں 

اسی میں خوش ہیں کہ تیری کتاب رکھتے ہیں


*محمد تعریف سلیم ندوی*

24-2-2021 بروز منگل

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے