Ticker

10/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

بہار کا روٹھا ٹوٹا سفر*

 *بہار کا روٹھا ٹوٹا سفر* 

*دبستانِ زندگی 71*

*ہم سے مت پوچھو راستے گھر کے*

*ہم تو مسافر ہیں زندگی بھر کے*

بنتے بگڑتے، روستے مناتے ہم پانچ افراد نے صوبہ بہار  میں سیمانچل علاقہ کے آخری ضلع کشن گنج آل انڈیا امامس کونسل کے پروگرام میں کم اور سیاحت کے جذبہ سے زیادہ سفر شروع کیا، دارجلنگ ہمارے منصوبہ میں آخری پڑاؤ تھا، اور یہی مقام احباب کو یکجا کرنے میں اہم ثابت ہوا تھا، دارجلنگ چونکہ ہندوستان کے مشہور سیاحتی مقام ہے جسے پہاڑیوں کی رانی کہا جاتا ہے اور یہ سطحِ سمندر سے 6000 فٹ اونچائی پر واقع ہے،دارجلنگ چائے کی پیداوار کے لئے مشہور ہے،

بہر کیف Ikram Khan بھائی،برادرم مولانا Mubarak Aali Meo ، Molana Sohrab Khan کے ساتھ بروز جمعرات 2021-2-18 کو ڈیزائر گاڑی سے روئے منزل ہوئے، عصر کوٹ میں ادا کر ورندھاون (مندروں کا شہر متھرا) سے یمنا ایکسپریس پر چڑھنے سے پہلے پیٹرول پمپ پر مغرب و عشاء کی نماز ادا کی، یمنا ایکسپریس آگرہ کے بعد تاج ہائیوے میں مبدل ہو جاتا ہے،لکھنؤ تک کا سفر نہایت سکون و عافیت سے طے ہوتا ہے، گاڑیوں کی برق رفتاری سڑک کی عمدگی و متوازن ہونے کا اعلان کرتی ہے، تاج ہائوے پر لگی لائٹس گویا گفتگو کرتے قمقمے ہوں جو ہر مسافر سے گفتگو کے آرزو مند و دلگیر ہوں.

نوابوں کے شہر لکھنؤ کے قلب سے رات دو بجے رومی گیٹ سے گزر ہوا،آج چار سال بعد اس شہر میں داخل ہوئے، سناٹا پسرا ہوا تھا،لیکن رومی گیٹ کا رعب و داب، بڑے امام باڑے کی خاموش دیواریں، آصفیہ مسجد و ٹیلے والی مسجد کی منارے ماضی کی یادوں میں مگن تھی، ڈالی گنج سے گزرتی بارہ بنکی شاہراہ پر تیزی سے گزر ہوا،بارہ بنکی، فیض آباد سے ہوتے ہوئے ضلع بستی سے پہلے سرِ راہ واقع جامع مسجد جامعہ اسلامیہ نور حیات ہرسا جعفر  میں نماز فجر ادا کی، امام صاحب جو مدرسہ کے صدر مدرس بھی تھے، تشریف لائے اور چائے کی دعوت دے ڈالی، کل شام سے مسلسل اڑتے ان پرندوں کو عارضی آشیانہ میسر ہوا تو بیٹھ گئے، امام صاحب نے بتایا کہ ضلع بستی میں دس بڑے مدرسہ ہیں،دوسرا بڑا مدرسہ اہل حدیث والوں کا ہے،بریلوی حضرات کی تعداد ہے، اور ضلع بستی میں دارالعلوم دیوبند سے قبل مولانا جعفر علی نقوی کا قائم کردہ ادارہ ہے،درمیان گفتگو سیاست کا موضوع آیا تو موصوف نے بتایا کہ یہاں بے جی پی کی جانب سب کا رجحان ہے حتیٰ کہ مسلم لیڑران بھی اسی کی طرف ہے، وہ مسلمان ہی کیا کافر ہیں اہلِ سنت و الجماعت نے انہیں خارج کر رکھا ہے بڑے ہی حقیرت آمیز لہجہ میں کہہ کر وہ خاموش ہوئے. 

میں نے استعجابیہ ان کو جاننا چاہا! ؟

جماعت اسلامی والے....!!

لاابالی پن میں انکشاف ہوا.

صدر مدرس نوجوان عالم اور دارالعلوم دیوبند سے فارغ تھے، میں نے وجہ خروج طلب کیا تو عقائد کہہ کر کم علمی کا اظہار کیا، میں نے مختصر اختلافات بتا کر آئندہ کسی بھی مسلمان کو کافر کہنے سے پرہیز کرنے کی تلقین کی، موصوف راضی ہو گئے،بتایا کہ کورونا کے ایام بڑے سخت تھے،ایک بیوہ خاتون نان بائی تھی جو مختصر سی جیب خرچ پر بھری جوانی کوٹ رہی تھی، شوہر نے طلاق دے کر بے گھر کر دیا تھا، تھوڑے وقفہ سے پاؤں پیر پھیل گئے تھے، بستی سے یو پی کے موجودہ وزیر اعلیٰ کے انتخابی حلقہ گورکھپور سے گزرنے لگے،اسی حلقہ سے بہار کے اثرات وعلامات ظاہر ہونے لگتے ہیں، بود و باش اور رہن سہن سے کسمپرسی و کمزوری اور غربت و لاچاری عیاں ہوتی ہے، کشی نگر یوپی کا آخری ضلع ہے، شاہراہ سے چھ سات کلو میٹر دور جاکر ہم نے CNG لی،چونکہ اس کے بعد بہار میں ہمارے روٹ پر CNG کا پمپ آخری تھا، بہار میں یہ مفقود ہے، یہاں تک گیس خرچ 1600یا 1700 روپے ہوا اور اس کے بعد کل دو سو کلومیٹر میں 3000 ہزار کا پیٹرول ڈلوایا گیا،

گوپال گنج ضلع سے بہار کی شروعات ہوئی،بہار کا نام آتے ہی ذہن میں غربت، بے روزگاری،محنت کشی نظروں میں گھوم جاتی ہے،

*غضب ڈھاتی ہے جس کی سادگی اہل بہاراں پر*

*ستارے سوچتے ہیں وہ سنور جاتا تو کیا ہوتا*

موتی ہاری ضلع کے بعد مظفرپور میں ایک عرفان نامی نوجوان سے ملاقات ہوئی، جو اپولو ٹائر کمپنی میں اچھے عہدہ پر فائز ہیں، نہایت خوش ہوئے، سرائے کھٹیلہ سے تھے لیکن شکل و صورت، بول چال سے علاقائیت کا نشانی نہیں تھی.

منزل دور، قدم رنجور، دل ملول، کبیدگی، رنجیدگی، افسردگی سفر کی طوالت سے دو چند ہو گئی.

گھر کی یاد گھر کر چکی تھی، جسم پر اکتاہٹ و تھکاوٹ کے آثار،دل پر دوری کا احساس حاوی ہو گیا،حالانکہ بہار کی بہار،راہ کے دو پہلو سبزہ زار میدان،لمبے لمبے پُل، نیچے سے بہتے وسیع و عریض ندیاں و نہریں، جتنی رونق قدرت نے یہاں جھلکائی ہے اس سے دیگر صوبے عاری و خالی ہیں، پورے بہار میں قدرتی طور اگ آئے پام درخت کی مختلف اقسام کی جلوہ سامانیوں سے رنگارنگ دلآویز مناظر ہیں، بہار میں قدِ آدم کے بانس کے گھیت میرے لیے حیرت انگیز تھے، مکئی، اناج اور کیلے کی فصل جگہ جگہ دیکھنی ہوئی،بہار سیمانچل علاقہ میں چار ہوٹلیں بنائی ہوئی ہیں ایک الور میوات ہوٹل پر ہم رکے،ملائی کے رہنے والے ہوٹل مالک نے آؤ بھگت کی، پردیس میں اپنائیت کیا ہوتی ہے اس کا نظارہ دور کہیں مل جانے پر ہوتا ہے،

کشن گنج میں واقع مسجد تجوید القرآن میں آل انڈیا امامس کونسل کے تربیتی پروگرام تھا، مولانا احمد بیگ ندوی سے ملاقات ہوئی، تھکے تھے سو گئے، صبح کھڑے ہوئے تو کئی وجوہات کی بریں بنا گھر واپسی کا عزم ہوا،ذمہ داران کو اطلاع دی اور ہم نے واپسی کا رخ کیا، واپسی میں اے ایم یو کیمپس پہنچے!!جاری

محمد تعریف سلیم ندوی

19-2-2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے