Ticker

10/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

مجاہدِمیوات مولانا محمدابراہیم خان‏

*مجاہدِمیوات مولانا محمدابراہیم خان الوری* 
(یادیں اور باتیں)
از میاں جی محمد فاروق خاں میواتی (بھنگوہ/میوات)       
توصیف الحسن خاں میواتی 
حضرت میاں جی محمدفاروق خاں  مدظلہ کاشمار میوات کی ان چند بزرگ شخصیات میں ہوتا ہے,جن کا تعلق میوات کے قدیم اسلاف سےبہت گہرارہااورانہوں نےان کی صحبتیں اٹھائیں, میاں جی کاملکی سطح کے اکابرعلماءومشائخِ اہلِ سُنّت سےبھی اچھاربط وتعلق رہا, وہ جمعیت علمائے ہندکےسابق صدراورشیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمدمدنی کےفرزند وجانشین مولاناسید اسعدمدنی سےناصرف ارادت وبیعت کاتعلق رکھتےتھے, بلکہ مولانا مدنی نےانہیں شرفِ خلافت سےبھی نوازا تھا, میاں جی کامجاہد میوات مولانامحمد ابراہیم خان الوری سےبھی بہت خاص تعلق رہا, ان کےآخری ایام میں ان کےبہت قریب رہےاورخوب ان کی خدمت اورتیمارداری کی,ہم آج کی صحبت میں اس حوالہ سے ان کی یادوں اورباتوں کومنضبط کرنےکی کوشش کریں گے,  یہاں میں محقق وادیب جناب شبیراحمدخان میواتی(لاہور) کاشکریہ بطورخاص اداکروں گا, جن کی توجہ اورتحریک وترغیب پر میاں جی کی یادداشتیں قلم بند کرنےکا سلسلہ شروع ہوا, ہم اب تک الحمدللّہ پانچ اکابر:(مولانا سیدحسین احمد مدنی,مولانا شاہ عبدالقادررائےپوری,مولاناسیدمحمدمیاں,چودہری محمد یاسین خان اور مولانامحمدابراہیم خان الوری)پراس نوع کےمضامین ضبطِ تحریر کرچکےہیں, یہ سلسلہ ابھی جاری ہے. 
       ----------------                                      محسن ومشفق, مجاہدِمیوات مولانا محمدابراہیم خان الوری رحمہ اللّہ(المتوفیٰ:4نوبر1970ء,الور.میوات) کومیں بچپن سے ہی جانتا پہچانتا تھا,دراصل ہمارے خاندان کےبزرگ مولاناکےحلقۂ ادارت میں شامل تھے مولانا الوری جب بھی جماعتی دورے پرنکلتے تو ہمارے  گاؤں میں ضرور تشریف لاتےتھے,رات قیام فرماتے,مغرب یاعیشاء کےبعد مسجدمیں خطاب فرماتے,صبح نمازفجرکےبعددرس قرآن دیتے,مجھے مولانا کی شخصیت سے انس ہوگیاتھا اوروہ بھی مجھ پرشفقت فرمانے لگےتھے,اسی تعلق کی بناپر 1966ء میں مولانا مجھے اپنے مدرسے میں استاد کی حیثیت سے لے کر گئے تھے, وہاں پر مولانا الوری کے چھوٹے دوفرزندوں (طلحہ/زبیر)نےابتدائی تعلیم مجھ سےہی حاصل کی تھی,میں کافی عرصہ مولانا کے پاس رہا, مولانا کے ساتھ ناصرف حضربلکہ سفروں میں بھی ساتھ جاتا تھا,میرےدوران تدریس ہی مولانا پرفالج کاحملہ ہوگیا تھا,اس مرضِ علالت میں مجھےاللّہ تعالیٰ نےاپنےاس برگزیدہ بندےکی خوب خوب خدمت کرنےکی توفیق ارزانی فرمائی, جسےمیں اپنےلیے ذریعۂ نجات سمجھتا ہوں, مولاناکےمرض و علالت میں,میں ازخود,اپنی سعادت سمجھتےہوئےمولاناکو اپنی کمر پر لاد کرگھرسے مدرسہ لاتااور مدرسہ سےگھر چھوڑ کرآتا تھا,یہ تقریباًایک کلومیٹر کافاصلہ تھا,مولانادن بھر مدرسہ میں ہوتے, مدرسہ میں مولانا کی دیکھ بھال کرنا, اُنہیں کھانا کھلانا, دوادینا,وضو وغسل وغیرہ کرانامیں نے اپنےذمہ لیاہواتھا, مولانامجھ سےبہت خوش تھے,مجھے بڑی دعائیں دیتے تھے,اس علالت و معذوری میں بھی مولاناچین سےنہیں بیٹھتےتھے,حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہتے,یومیہ اخبار 'الجمعیت'دہلی اور'مدینہ'بجنورمجھ سےپڑھواکرسنتے تھے,ان کاذھن اور دماغ برابر چلتا رہتاتھا,زبان سےہدایات دیتے, دوسروں کوکام کےلیے انگیخت کرتے رہتے تھے,میوات کی بازآباد کاری,مساجد کی بحالی,تعلیمی اداروں کاقیام اور جمعیت علمائےہند کےمشن کوگھرگھر پھیلانا,انہوں نے اپنےذھن اوردماغ پرمسلط کررکھے تھے,اس حالت و کیفیت میں بھی, جس قدراُن کےلیے ممکن تھا,بلکہ امکان سےبڑھ کرسرگرمِ عمل رہتےتھے,میں نےاپنی زندگی میں ان سےزیادہ متحرک وفعال کوئی نہیں دیکھا,کہناچاہیےکہ وہ حقیقی معنوں میں ایک سیماب صفت انسان تھے. 
  مولانا نےتحریکی مزاج پایاتھا,وہ آزادی کے متوالے تھے,سامرج دشمنی تو ان میں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی ,انہوں نےتحریکِ آزادیِ ہندمیں باقاعدہ حصہ لیا,ماریں کھائیں,جیلیں کاٹی,لیکن وہ کسی بھی مرحلہ میں پست ہمت نہیں ہوئے,ان کی تحریک آزادی کے سلسلےکی خدمات کااعتراف کرتےہوئےحکیم اجمل خان میو (شکراوہ)نےاپنی کتاب"میوات کے سوتنترتاسینانی"(مولاناآزادمیوات اکیڈی.شکرواہ.میوات/جنوری 2010ء) میں ان کاتذکرہ تفصیلاً(صفحہ134تا148)کیاہے.          مولانابڑےحق آشنا,حق پسنداورغضب کےحق گوانسان تھے,حق سچ کوبلاخوف و خطر کہہ دیاکرتےتھے,دل کےاندرکسی کا,کسی قسم کاخوف نہیں رکھتےتھے,ایک دفعہ کا واقعہ ہےکہ ایک میٹنگ میں چیف منسٹر مدن موہن سُکھاڑیانے مولانا سےمخاطب ہوکر انہیں زِچ کرنےکے لیےالزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ میں نےآپ کے بارے میں ایسا سناہے؟,مولانا نے کہا میں نے بھی تمہارے بارے میں سنا ہے کہ تم رنڈی کی ناجائز اولادہو,اس پر سُکھاڑیاجی سہم کررہ گئے,کہاکہ مولانا آپ توبُرامان گئے,میں تومزاقاًکہ رہاتھا, مولانانےجواباً فرمایاکہ "مجھ سےایسی بات مزاق میں بھی کرنے سےپہلےسوبارتوسوچاہوتا,یاکم ازکم پنڈت نہروسےہی پوچھ لیا ہوتاکہ آیاابراہیم خاں سےایسی بات مزاق میں بھی کی جا سکتی ہےیا نہیں؟ "مولانابہت دبنگ اورنڈرتھے,سامنےکوئی ہو, کسی ہی مجلس کیوں نہ ہو, بلا جھجک گفتگو کرتےتھے, مولانا تو پنڈت جواہر لعل نہرو کو بھی ڈانٹ دیاکرتے تھے,                                           مولاناالوری کے مولاناابوالکلام آزاد سےبہت اچھےاور گہرےمراسم              
تھے,مولاناآزادنےمیوات کی بازآبادکاری, میوات کی اہم تاریخی مساجد ومدارس اورمزارات وقبرستانوں کی واگزاری میں مولانا الوری کےساتھ بھر پورتعاون فرمایا تھا,مولاناکامولانا آزادکےہاں بلا روک ٹوک آناجانا تھا, مولاناآزادمولاناالوری کی قدر کرتے تھے,مولاناالوری نےمولاناآزادکوحقِ تعلق اورمیوات کےلیےان کی خدمات کاصلہ یہ دیاکہ 11مارچ1957ء کو گوڑگانواہ(میوات)کےحلقۂ انتخاب سے الیکشن جتوا کرپارلیمنٹ کا رکن منتخب کرایا تھا,حیرت انگیز تاریخی بات یہ ہےکہ مولاناایکشن سےپہلےاورناالیکشن کےایام میں اپنےحلقۂ انتخاب میں گئےہی نہیں تھے, ان کی ساری کمپین مولانا محمد ابراہیم خان الوری اوران کےرفقاء نے چلائی تھی, مولانانےاہل میوات کاشکریہ اداکرنےکے لیےمیوات جانےکا پروگرام بنایاتھالیکن دوسری حیرت افزابات یہ ہےکہ مولاناالوری میوات کےعلماء اور چودہریان و خوانین کاوفد لےکر خود مولاناکےہاں اُن کاشکریہ اداکرنے پہنچ گئےتھے کہ  انہوں نےاہلِ میوات پراعتماد کیا اوراس دھرتی کوالیکشن لڑنےکےلیےمنتخب کیا,مولاناآزادوفدسے مل کربہت متاثر ہوئے تھے, مولاناآزادکو میوات کابہت پاس اور لحاظ تھا, مولاناالوری مجھے دوسرے لوگوں کےپاسں کام سے بہیجا کرتے تھے, ایک دفعہ  مولانا نے مجھے علاقے کے ایک لیڈر کے پاس کسی کام سے بھیجا,جب میں ان سےملاتوانہوں نےدورانِ گفت وشنید کہاکہ اب مدرسہ کو سمبھالنا,اور اس کےنظم کوچلانا مولاناکےبس کا نہیں رہا,مولاناکو چاہیےکہ وہ مدرسے کو حضرت جی  کےسپردکردیں. میں نے جاکر مولاناسے عرض کیاکہ وہ صاحب یہ کہہ رہے تھے.مولانا کویہ بات بہت ناگوارگزری, فرمایاکہ ان سےکہنا'تم اور تہمارےحضرت جی اس وقت کہاں تھے جب یہ مدرسہ و مسجد بلکہ میوات کی کتنی ہی مسجدیں ہندؤں کے قبضےمیں چلی گئی تھیں؟,فرمایاکہ میں تبلیغی جماعت کے خلاف نہیں ہوں, جماعت کی بنیادوں میں میری دن رات کی محنت وریاضت اورمیرا پسنہ  شامل ہے, لیکن اب یہ مدرسہ ومسجد جمعیت علمائےہند کامرکز ہے,مرکزر ہےگا,اس کی عمارت پرہمیشہ اسی شان بان سےجمعیت کاپرچمِ نبوی لہراتارہےگا, میں زندہ رہوں یانہ رہوں.مجھے بتاکید فرمایاکہ میری ناگواری اورمیری یہ باتیں ان تک لازمی پہنچانی ہیں. مولاناکواس مرکز سےبہت لگاؤتھا, معذوری کی حالت میں اس کی تعمیروتوسیع کےلیےناصرف فکرمندتھےبلکہ پُرانی عمارت کو منہدم کرواکرنئی عمارت کی تعمیر شروع کروادی تھی,جواُن کےدنیا سےچلےجانےکےبعدہی تکمیل پزیر ہوئی تھی, 
 مولاناکی خدمات اورقربانیوں کی بناپرعوام انھیں بہت چاہتی تھی, عوام بہت ان  سےمحبت کرتی تھی, ہم نے دیکھا ہے جب کسی قصبہ یاگاؤں میں جاتے تھے تو وہاں کےلوگ مولاناکازبردست طریقےسےبہت پُرجوش استقبال کرتے تھے,ان کےاردگردجمع ہوجاتےتھے, موکانا کوجمعیت کےپیغام کو عام کرنےکابہت غلبہ تھا,بلکہ کہنا چاہیےکہ جنون تھا, ہروقت جمعیت کے کام کی فکرلاحق تھی,مولاناہرشخص کوجمعیت کےمشن کوعام کرنےکےلیے کہتےتھے,مولانا کا چندہ کرنےکاانداز سب سےمنفرد تھا, قصبہ کےجوبڑے لوگ ہوتےتھےان سے مولانا کہتے تھے کہ فلانےچودہری صاحب آپ نےاتنے رقم جمعیت کےلیے اوراتنے پیسےمدرسہ کےلیےدینےہیں,فلاں خان صاحب تمارے ذمہ جمعیت کےلیے اتنی ادائی ہےاور درس کےلیے اس قدر,اورفلانےبھائی تم نےاتنے پیسے جمعیت فنڈمیں دینے ہیں اور اتنے مدرسہ کےلیے دینے ہیں اور وہ خوشی خوشی دیتے تھے, اللہ نے کمال کا رعب دبدبہ دیا تھا لیکن اس کےساتھ ساتھ نرم مزاج بھی بہت تھے,وہ ایک تحریکی شخصیت تھےاور بہت قائدانہ اوصاف وکمالات رکھتےتھے, اللّہ نےانہیں پیداہی میوات کی قیادت ورہنمائی کےلیےتھا,حق تویہ ہےکہ انہوں نےقیادت کاحق اداکردیاتھا, اللّہ ان کی بال بال مغفرت فرمائے, ان کےدرجات بلند کرےاورہمیں ان کےنقش قدم پرچلنےکی توفیق دے,آمین-

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے