Ticker

10/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

مرشد الامت کی خدمت میں

  •  مرشد الامت کی خدمت میں

دبستانِ زندگی 71 (قسط 3)

.


مہمان خانہ کے صحن میں حضرت ناظم صاحب کے خادم سے ملاقات ہو گئی،انہوں نے راہنمائی کی ، حضرت کے ہاں پہلے سے کئی افراد آپ کی عیادت و زیارت کو حاضرِ خدمت تھے،ہمارا تعارف ہوا، بہت خوش ہوئے، میوات کا ذکر آیا تو بے ساختہ فرمایا میوات کے لوگ مخلص و سچے ہوتے ہیں،ان کی مثالی جد و جہد اور پیہم کوششوں کا نتیجہ ہیکہ آج دعوت و تبلیغ کی نسبت سے اسے عالمی شہرت حاصل ہے!!

میں نے میوات تشریف آوری کی دعوت دی تو اپنے اشتیاق و چاہت کا ذکر کئے بغیر نہ رہ سکے، فرمایا مدت سے میوات کی سرزمین کو دیکھنے کا شوق دل میں موجزن ہے لیکن قسمت و نصیب کی لکیریں حائل رہی، اگر اب صحت ساتھ تھے، جسم میں توانائی کا احساس زندہ ہو نیز سفر کی زحمت آن پڑی تو میوات کا شوقِ دیدار بھی بے حجاب ہو جائے گا.

مسکراتے ہوئے کم ہی گفتگو کر پائے.

اتنے میں ہمیں سلیمانی چائے کی دعوت دے ڈالی، صبح سے ایک چائے کے سوا پیٹ میں کچھ نہیں گیا تھا، جسم چور چور تھا، ندوہ کی دکانیں سونی پڑی تھی، شباب مارکیٹ پہنچے اور بے ذائقہ کھانا بھوک میں رغبت سے کھایا.

اب ننید کا خمار اپنے شباب پر اور نمارے دماغ پر طاری ہو چکا تھا.

ہمیں بتایا گیا کہ اپنا مقصد بتا کر مصباح بھائی (مہمان خانہ کے کھڈوس خادم) کو اندراج کرا دینا،انتظام ہو جائے گا.

مصباح صاحب بد تمیزی و پھوہڑ پن کا ذکر ندوہ میں قیام کے دوران سنتے رہتے تھے.

موصوف آئے.... ہم نے مدعا کہ سنایا....! جس ناشائستگی و بد تہذیبی نے اس نے منہ پھیر کر استقبال کیا،وہ میرے لیے عجیب نہیں تھا پر تکلیف دہ تھا.

مزید برآں کہنے لگے جاکے مہتمم صاحب سے اجازت نامہ لیکر آؤ...!

حضرت مہتمم صاحب کی ترش روئی اور سخت رویہ کا ذکر اتنا سنتے تھے کہ تین سالہ طویل عرصہ میں ان سے علیک سلیک تک کی نوبت نہ آئی، دل میں خیال گزرا کہ وہاں سے ناامیدی و انکار کے کچھ ہاتھ نہیں لگے گا،..! 

*بڑے بدنصیب ٹھہرے جو قرار تک نہ پہنچے!!!*

*درِ یار تک تو پہنچے دلِ یار تک نہ پہنچے!!*

باقی احباب حیران و ششدر تھے کہ مولانا عبدالسلام ندوی بھٹکلی ہمیں سہمتا دیکھ ٹھر گئے، میں نے بڑھ کر سلام کیا اور میری آواز روندھ گئی،وہ ہمارا قضیہ سن کر کمرہ لیکر گئے تاکہ غم غلط کیا جا سکے،مولانا موصوف کو میوات و اہلِ میوات سے قلبی ربط ہے بایں وجہ آپ ندوہ میں میواتی تنظیم کے پروگرام میں شرکت کرتے رہیں ہیں، فرمایا 1995 میں فراغت کے بعد میوات جماعت میں تشریف لائے تھے، مفتی ضیاء الحق صاحب قاسمی ندوی (استاد مدرسہ معین الاسلام نوح)سے آشنائی کا اظہار کیا، مولانا نے کورونا وبا سے ادارہ کی احتیاط و تحفظات سے باخبر کیا،اور دیگر لیت و لعل اور پر خلوص میزبانی سے دلداری و تالیف قلب کا ہر سامان پیدا کرنا چاہا لیکن بیزاری و دل برداشتگی کا اثر قوی تھا.

پھر آخری میں موصوف نے فرمایا کہ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ جب بندہ ہر جگہ سے دھتکار دیا جائے تو رب کی پناہ لے اور رب العالمین پر اس کا تیقن و ایمان قوی تر ہوتا چلا جائے.


*کون کہتا ہےخدا نظر نہیں آتا*

*وہی تو نظر آتا ھے جب کچھ نظر نہیں آتا*

مولانا عبدالسلام صاحب سے میں عالیہ ثالثہ میں ترمذی پڑھی تھی.

متبع سنت و شریعت ہیں، پہلے بھی اور آج بھی نصیحت فرمائی کہ زیادہ بزرگوں کے تجربات و مشاہدات، اوراد و وظائف کی رٹ نہ لگائیں بلکہ صرف مسنون دعاؤں اور نبوی وظائف کا اہتمام کیجئے، کیسی پیاری بات فرمائی. 

(ابنائے ندوہ میوات کی اگلی مجلس میں ان کو مدعو کرنے کی ترتیب لگائی جا رہی ہے.)

ایک عظیم محقق بلند پایہ نوجوان عالم دین مولانا فیصل بھٹکلی سے ملاقات ہوئی، کتابوں کا ذکر چھڑا تو کتابوں کے رسیا،علم دوست صاحبِ درک و فہم جناب حاجی شبیر احمد میواتی پاکستانی کا تذکرہ ہوا، موصوف کی علمی دھمک محقق صاحب کے کلام سے مترشح ہو رہی تھی.

اور میرے احساس میں تازگی و جدت کا نگینے جڑ رہے تھے.

اب ہمارے پاس ندوہ سے رخصتی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، میرے لکھنؤ شہر میں کوئی شناسا نہیں بھی تھا، لہٰذا پھر سفر کا فیصلہ ہوا، ہمارے دونوں سائق بخار و حرارت میں تھے، ایک نے ہمت کر کے لکھنؤ کے حدیں عبور کی اور گاڑی تاج ہائی وے پر لگا کر تیسرے اناڑی نو آموز ڈرائیور مولانا مبارک کو تھما دی، انہوں نے جس سنجیدگی و بیداری سے گاڑی کا اسٹیرنگ پکڑا وہ قابلِ قدر تھا،

رات کے آخری پہر میں ان سے مولوی سہراب نے گاڑی لی اور اسے ایک ٹول ٹیکس پر ایک طرف لگایا اور سب سو گئے.

صبح کھڑے ہوئے تھے ایک ساتھی کے مطالبہ پر تاج محل دیکھنے کا ارادہ ہوا، لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا؟ آگرہ میں رہبر و میزبان کون ہوگا؟

سوالات در آئے اور جواب نے بھی جگہ لی، اور صبح کاذب میں ہی مفتی ضیاءالحق صاحب کی گھنٹی کھڑکا دی؛؛ 

ٹرن ٹرن گھنٹی جانے لگی.......... جاری

محمد تعریف سلیم ندوی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے