Ticker

10/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

حضرت شاہ محمد رمضان شہید مہمی کون اور کیا تھے

ہادئ ہریانہ 
حضرت شاہ محمد رمضان شہید مہمی 
کون اور کیا تھے 

🖌توصیف الحسن میواتی
مشائخ کبار کے مقبول تذکروں میں آپ پائے گئے ہادی ہریانہ حضرت شاہ محمد رمضان شہید مہمی رح اس جلیل القدر خانوادے کے گل سر سید تھے جو سات سو سات تک ضلع رہتک میں مقیم رہا اور ان سات صدیوں میں اس خاندان کے سو فیصد مرد تعلم یافتہ رہے ہیں اور اسی بزرگ خاندان کے بارے میں دہلی دربار 1911ءکی سرکاری ریپوٹ کے صفحہ 381 پر لکھا ہے:
کہ اضلاع حصار رہتک کرنال اور گوڑگاؤں کے مسلم راجپوتوں کو حلقہ اسلام میں لانے اور ان کی اصلاح کرنے میں اس خاندان نے نمایاں کردار ادا کیا ہے اس تحریر میں جس خدمت اسلام کا ذکر ہے اس کا زیادہ تر کریڈیٹ حضرت ہادئ ہریانہ رح کو جاتا ہے 
 آپ نے جو عظیم الشان ٹھوس کام کیا 
وہ یہ کہ 1803ء  میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے دہلی کی زمام  حکومت چھن جانے کے بعد علاقہ ہریانہ کے جری اور بہادر مسلم راجپوتوں کی  اکثریت شاید اپنے قدیم دین یعنی کفر کی طرف لوٹ جاتی آپ نے اس قدر ٹھوس کام کیا اور معاشرے میں ایسی نیک خوشگوار اور دیر پا تبدیلیاں کیں کہ آپ کے حکیمانہ طرز تبلیغ کا مطالعہ ہر اس شخص کے لئے مفید ہوسکتا ہے جس کا شعار خدمت دین ہے

آپ کی ابتدائی زندگی اور حصول علم 
آپ کی ولادت (1183ھ)(1769ء)مقام مہم 
آپ کی شہادت 28جمادی الاوّل 1240ھ
18جنواری 1825ء مندسور 
مرقد قصبہ مہم ضلع رہتک
آپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّہ عنہ کی انتیسویں پشت سے تھے آپ کے اجداد میں سے زبدۃالاولیا حضرت قاضی قوام الدین رہتکی پہلے بزرگ تھے جو ساتویں صدی ہجری میں رہتک میں سکونت پزیر ہوئے قاضی  قوام الدین  موصوف کے دو فرزند تھے مولانا افتخار الدین مولانا کبیر الدین مولانا کبیر الدین اور ان کے  بھتیجے قاضی عمادالدین ابن مولانا افتخار الدین کو سلطان معزالدین کیقباد نے 1287ء میں بعض خدمات دیکر مہم بھیجا یہ پہلے دو مسلمان تھے جو اس قصبہ میں آباد ہوئے

اسی خاندان کے ایک بزرگ  مفتی فضل اللہ عرف ماہر و شہنشاہ ہمایوں کے دبیر تھے ایک اور بزرگ مفتی عزیز اللہ شہید انکی شہادت 4 محرم 1109ھ 13جولائ 1667ء اورنگ زیب عالمگیر کے دبیر خاص تھے امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پدر بزرگوار شاہ عبدالرحیم کے مدرسہ رحیمیہ سے پہلے مفتی عزیزاللہ موصوف کا دہلی میں مدرسہ عزیزیہ علوم قرانی کی اشاعت کا مرکز تھا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے