Ticker

10/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

حضرت مولانا شاہ عبد القادررائے پوری رح یادیں اور باتیں


*حضرت مولانا شاہ عبد القادررائے پوری رح*
یادیں اور باتیں 

از *حضرت میاں جی محمدفاروق خان میواتی* خلیفۂ مجاز حضرت مولانا سیداسعدمدنی(بھنگوہ,میوات)
✍🏻توصیف الحسن میواتی 

ہم اہل میوات نسل درنسل اپنےھادی ومربی,مخدوم ومحسن حضرت جی مولانا محمد الیاس کاندھلوی پردل وجان سےفدا تھے,ہیں اور ہمیشہ فدارہیں گے,میوات کےہرہر فرد کی زبان پراُن کاچرچا رہتا تھااورآج بھی ہے,ہمارے حضرت جی اپنے معاصراکابر میں دوبزرگوں کو بہت چاہتےتھے,ان کابہت اکرام و احترام کرتے اوران کا بےحد محبت سے ذکر خیرکرتے تھے,انہوں نےان بزرگوں کی یہ محبت اہل میوات کےدلوں میں بھی راسخ کردی تھی, یہ دوبزرگ: 
1)شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدمدنی اور
2)قطب الارشاد حضرت مولاناشاہ عبدالقاد ررائےپوری تھے-رحمہم اللّہ تعالیٰ. 
اس لیےاہل میوات حضرت جی کی طرح ان دونوں اہل اللّہ کودل وجان سے چاہتے تھے,دونوں بزرگوں نےبارہا میوات کےدورے کیے,کئی کئی روز میوات میں قیام فرمایا,ان بزرگوں کے آستانوں پر میواتیوں کاانفرادی اورقافلوں کی صورت میں بہت کثرت سےآناجانا تھا,دونوں بزرگوں نے میوات کےپانچ سالکینِ تصوف کوخلافتوں سےبھی مشرف فرمایا تھا,حضرت رائےپوری نےجن پانچ میواتیوں کوخلافت سے سرفراز فرمایا, ان کےاسمائےگرامی یہ ہیں:
1)حضرت مولانا عبدالمنان الدھلوی(دہلی)
2)حضرت مولانا فتح محمد خان میواتی(دہلی)
3)حضرت مولانا رحیم شاہ میواتی (دہلی)
4)حضرت مولانا محمدعبدالرشید نعمانی(کراچی) 
5)حضرت مولانا پیرجمیل احمد میواتی دہلوی(رائےونڈ) .
جیساکہ اوپرعرض کیا,ہمارےمیوات میں حضرت جی, حضرت مدنی اورحضرت رائے پوری کابہت چرچا تھا,مجھےمجاہدِمیوات مولانامحمد ابراہیم خان الوری (سابق ایم ایل اے وبانی صدر جمعیّت علمائے ہند,میوات) کےآخری ایامِ حیات میں ان کےساتھ وقت گزارنے اوران کی خدمت کرنے کابہت موقع ملا,وہ تینوں بزرگوں (حضرت جی,حضرت مدنی اورحضرت رائے پوری)کابہت والہانہ انداز سےبکثرت تذکرہ کیاکرتےتھے, اس لیے مجھے جیسےحضرت جی مولانا محمد الیاس اورحضرت مدنی سےمحبت تھی, ایسےہی حضرت رائےپوری سے بھی بہت انس ہوگیا تھا,یہی انس و محبت حضرت سے بیعت کی خواہش میں بدل گیا,چنانچہ میں حضرت رائے پوری سےان کے میوات کےایک سفرمیں بیعت ہوگیاتھا, میں نےبعدمیں فروری 1962ءمیں حضرت کی زیارت اور روحانی استفادہ کے لیے رائے پور کا سفر کیاتھا، وہاں بارہ دن گزارے,خانقاہِ رائے پورکاماحول بہت الگ تھا کہ وہاں شب و روزسالکین و ذاکرین ذکراللّٰہ میں مصروف ہوتےتھے، لیکن قدرے آہستہ آوازمیں, سوائے نمازوں کے اوقات کےہروقت ذاکرین اللّہ کی یادمیں محو,مست وسرشار نظرآتےتھے, ماحول اورفضا پر انوارات کی بارش برستی محسوس ہوتی تھی,حضرت کی مجلس میں شریعت و طریقت کےساتھ سیاسیات کی گتھیاں بھی سلجھائی جاتی تھیں.جب خانقاہ میں حضرت شاہ عبد القادررائے پوری قیام فرماہوتے تو سالکین تصوف کا بہت ہجوم ہوتا تھا، حضرت کاچونکہ تقسیمِ ہندکےبعد پاکستان بھی جانا ہوتا اور کئی کئی ماہ وہاں قیام فرماتےتھے,اس لیے جب خانقاہ میں ہوتےتوسالکین کے علاوہ ملک کی بڑی شخصیات بھی حضرت کی زیارت و ملاقات کے لیے کثرت سےآتی جاتی تھیں,جب ہم وہاں پر مقیم تھے تو خانقاہ میں حضرت رائےپوری سےملنے کے لیےشیخ الحدیث مولانامحمد زکریا کاندھلوی'حضرت جی ثانی مولانا محمد یوسف کاندھلوی اورمیواتی حضرات:مولانا عبدالمنان الدھلوی, مولاناعبداللّٰہ مال پوری اورتبلیغی بزرگ میاں جی رحیم بخش خاں بھی وہاں قیام فرماتھے,ایک روز کا ذکر ہے کہ خانقاہ کے کنوئیں میں چمڑے کا بڑا ساڈول گِرگیا,کنواں بہت زیادہ گہراتھا, بڑی کوشش کے بعد بھی اسے نکالا نہ جاسکا، میں نے کہا کے میں اس ڈول کو نکال کر باہر لاسکتا ہوں, کیونکہ میں تیراکی اورغوتا خوری میں ماہرتھا, مجھے بتایاگیا کہ اس کنواں کی مُنڈیر پر جنات کاڈیرا ہے, کبھی کبھی کنواں سےذکرکرنےکی اورکبھی عجیب وغریب خوف زدہ کردینے والی آوازیں بھی سنی گئی ہیں,میں نےکہا مجھےاللّہ کےسوا کسی جن بھوت سےکوئی خوف وہراس نہیں,میں کنواں میں اترنے کےلیےتیارہوں, کسی نےحضرت رائے پوری سےاُوپر مذکور مہمانوں کی موجودگی میں میری طرف اشارہ کرکےکہاکہ یہ میواتی نوجوان ڈول کےلیےکنواں میں اتر نےکےلیےتیارہے,اس کاکہناہےکہ میں ڈول کونکال لاؤں گا, حضرت نےفرمایا کہ نہیں ہرگز نہیں, رہنےدو,کنواں بہت قدیم ہےاورگہرابھی ہے,پھرشیخ الحدیث اورحضرت جی ثانی کی طرف مسکراکر فرمایاکہ اس میواتی کوکچھ ہوگیا تواہل میوات   اِدہردھاوابھی بول سکتےہیں,پھربھلاکون ان کےمقابل ہوگا,کون ان سے بچائےگا؟, اس پرحضرت شیخ الحدیث نےفرمایا کہ حضرت! یہ توایک میواتی ہے,مولانا الیاس نےان میواتیوں کی ایسی تربیت کی ہے,ان کے دلوں میں حضرت مدنی اورآپ کی محبت وعقیدت اس قدر راسخ کردی ہےکہ یہ توسبھی ہروقت آپ حضرات پر دل جان سے فداہونےکےلیےتیار رہتے ہیں.جس روز میں نے وہاں سے اپنے ایام پورے کر کےگھر لوٹناتھا,میں حضرت کو ایک کھڑکی  سے بار بار دیکھتا او

ر دل میں آتاکہ اب آج کے بعد آپ کی زیارت شاید نصیب نہ ہو,میں بارباراس خیال کوجھٹکتا,لیکن اس خیال سےدل بھر بھرآتا اورآنکھیں باربارنم ہو تی تھیں,بعد میں ایسا ہی ہوا,حضرت رائے پوری پاکستان کے سفرپرگئے,وہاں لاہور میں16 اگست 1962ء کوانتقال ہوا,ان کی رائےپور میں اپنے مرشد ومربی حضرت مولاناشاہ عبد الرحیم رائےپوری کےقدموں میں دفن ہونےکی خواہش کے برخلاف ان کے عزیزوں نےآبائی قصبہ ڈھڈیاں(ضلع سرگودھامیں تدفین کی تھی.حضرت رائےپوری کےانتقالِ پُرملال کومیوات میں بہت محسوس کیاگیا, پورےمیوات میں تعزیتی جلسے ہوئےاور سبھی مساجد ومدارس میں قرآن خوانی اورایصالِ ثوات کااہتمام کیاگیا,اہل میوات کابزرگان رائے پورسے محبت کایہ عالم ہےکہ چندسال پہلےالور میں جمعیت کااجلاس تھا,جس میں میوات کے علماءوچودہریان اوردینی مزاج کےلوگ موجودتھے, کسی نےاطلاع دی کہ پاکستان سے سلسلۂ رحیمیہ رائے پور کےسجادہ نشین مولانا شاہ سعید احمدرائے پوری بھارت آئِے ہوئے ہیں,اس اطلاع کاشُرکائے اجلاس پراس قدراثرہواکہ اکثرحاضرین فرطِ عقیدت ومحبت و جذبات میں آبدیدہ ہوگئے تھے.اہل میوات کے دلوں میں نسل در نسل جن چار بزرگوں کی فدویانہ عقیدت و محبت ہے,ان کےاسمائے گرامی یہ ہیں:
1) حضرت میاں راج شاہ میواتی,
2) حضرت جی مولانا محمدالیاس کاندھلوی,
3)حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی,
4)حضرت مولانا شاہ عبد القادررائے پوری.
اللّہ تعالیٰ ہمارےان بزرگوں کی بال بال مغفرت فرمائے, درجات بلند کرے,ان کی قبروں کوجنت کاباغ بنائےاوران کے فیوضاتِ علمیہ وروحانیہ سےاہل میوات کوہمیشہ متمتع ہونےکی توفیق عطا فرمائے,آمین-

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے