Ticker

10/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

جب رائے پور کی خانقاہ مرجعِ خلائق بنی

 *جب رائے پور کی خانقاہ مرجعِ خلائق بنی*

حاصلِ مطالع(1)

سوانح حضرت شیخ عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ



  • سال 2021 شروع ہو چکا، سابقہ سال بہت سی تلخیاں و خوشیاں چھوڑ رخصت ہوا ،گزشتہ سال 8-10-2020 بروز اتوار جامعہ کے سرپرست اعلیٰ داعئ اسلام حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب دامت برکاتہ میری ادنیٰ سی دعوت پر جامعہ تشریف لائے، اسی دن میں اپنے اہلِ خانہ کی موجودگی میں حضرت والا سے بیعت ہو گیا، حضرت نے بیعت فرما لیا اور اوراد و وظائف کے ساتھ سوانح شیخ عبدالقادر رائے پوری، تاریخ سید احمد شہید اور خطباتِ تھانوی کا مطالعہ تجویز فرمایا.

ایک ماہ قبل دہلی جانا ہو تو علم دوست نوجوان عالم عبدالمالک بلندشہری نے سوانح عبدالقادر رائے پوری کا بیش قیمتی تحفہ مجھے دیا.

اب پڑھنے کی بھی نوبت آ چکی.

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ کے قلمِ سیال کا یہ بھی ایک علمی نمونہ ہے.


مصنف نے اس سوانحی باغیچہ میں پندرہ کیاریاں بنائی ہیں، ہر کیاری(باب) میں لگے بیل بوٹوں کی آبیاری و سنچائی میں عشق و محبت کی پھوار کی ہے.


شیخ المشائخ حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری کی تمام زندگی کا جس خوش اسلوبی سے نقشہ کھینچا ہے وہ ایک مخلص خادم و مرید کا حقیقی نذرانہ عقیدت ہے، جو رسمی غلو  اور کشف و کرامات کے من گھڑت قصہ گوئی سے یکسر پاک ہے، قاری ایک ایسی خانقاہ سے روبرو ہوتا ہے جہاں دل کی حقیقی دنیا آباد ہوتی ہے،جس کاخِ فقیری کا رخ ہر خاص وعام کرتا ہے، جہاں دل کی دوا اور روح کی غذا کا نظم ہے،جہاں شاہ و گدا کا ہجوم ہوتا ہے. 


حضرت شیخ کی ولادت کا تعین نہیں تاہم قرائن 1873ء کے بعد کی نشاندہی کرتے ہیں، آپ کا وطن ڈھڈیاں ضلع سرگودھا (پاکستان) میں ہوا، اکتسابِ علم کے لیے ہر فن کے ماہرین کا رخ کیا تو اولا دہلی پھر سہارنپور میں مولانا ثابت علی کے شہرہ آفاق شرح جامی کے درس میں حاضری،قرأت کی مشق پانی پت سے، معقولات و منطق رامپور سے،طب بانس بریلی سے، آخر مولانا انور شاہ کشمیری کے درسِ حدیث میں مدرسہ امینیہ دہلی پابندی سے شریک رہے، جو کہ ان دنوں سنہری مسجد میں لگتا تھا، یہ وہیں زمانہ تھا جب اہلِ حدیث کے نام سے ایک نیا فرقہ جنم لے رہا تھا،اور اس کے ایک داعی و محرک سید نذیر حسین دہلوی کا درس متاثرین و متعلقین کے لئے مرجع و مرکز بنے ہوئے تھا.

آپ نے درسیات کی تکمیل کے بعد بانس بریلی میں تعلیمی و تدریسی سلسلہ کی ابتداء کی جہاں بریلوی مسلک کے بانی مولانا احمد رضا خان کے صاحبزادے بھی آپ سے تلمذ کا رشتہ رکھتے تھے،ان دنوں احمد رضا خان صاحب اپنی ذہانت و فطانت اور اپنی حقانیت و عظمت کو ثابت کرنے کے لئے مجادلہ و مناظروں میں جی جان سے لگے تھے، یہ پورا عہد مناظروں، مجادلوں اور مباحثوں کا دور تھا.

آپ کی سلامتِ طبع نے گوارا نہیں کیا اور والد کے انتقال کی خبر سن کر واپس آ گئے.

اب آپ کی بے چینی و بے کلی کی شروعات تھی اور طبیعت روحانی وجدان و قلبی اطمنان کی متلاشی ہوئی،

اسی زمانہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کے فرسودہ دعوے اور دعوت کا غلغلہ تھا، پنجاب کے مسلمانوں میں کوئی بستی اس کے چرچے سے خالی نہیں تھی،آپ بھی ان کی ملمع سازی سے متاثر ہوئے، لیکن خدا نے فضل فرمایا اور حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری رحمہ اللہ کے قدموں میں جا پہنچے،فرماتے تھے" حضرت سے نہ ملتا تو قادیانی ہو جاتا"، بیعت ہوئے،مجاہدہ، مراقبہ، ریاضت، عبادت، ارادت اور شیخ کی خدمت و محبت میں اس درجہ مشغول ہوئے کہ بیوی کے انتقال کے بعد یکسوئی سے اسی در کے ہو کر رہ گئے.

اپنے شیخ کے رحلت کے بعد یہی ہم نشیں ان کا جانشیں قرار پایا.

آپ کے اخلاص، وسعتِ اخلاق اور شفقت و محبت سے بہت جلد رائے پور کی خانقاہ مرجعِ خلائق بن گئی،


خانقاہ کا نظام الأوقات ایسا کہ طالبین و سالکین چوبیس گھنٹے خدائے واحد کی یاد میں کھویا رہے.

حضرت شیخ رات دو بجے اٹھ کر تہجد، ذکر(نفی،اثبات) مراقبہ میں فجر تک مشغول ہوتے، فجر بعد تین میل لمبی سیاحت،واپسی میں دوبارہ ساڑے دس بجے تک مراقبہ پھر طعام سے فارغ ہو کر قیلولہ فرماتے، ظہر بعد تخلیہ ہوتا، عصر بعد کتابوں کی خواندگی کا سلسلہ ہوتا جس میں اکثر صحابہ کے واقعات پڑھے جاتے تھے،زندگی بھر اہم خبریں سننے کا معمول رہا اور متعین شخص بالترتيب خبریں سناتا، مغرب بعد اپنے منتسبین و طالبین کو ہوتا جو اپنی خاص حالت و کیفیت بتانے کے خواہاں ہوں اور بیعت بھی فرماتے. عشاء کے نماز کے بعد جلد سو جاتے تھے.

زندگی بھر یہ معمول رہا، خانقاہ میں ہر وارد و صادر روحانی کیفیت کو محسوس کرتا، وہاں پہنچ کر ہر غم غلط اور تردد و فکر فراموش ہو جاتی تھی. رائے پور کے پورے ماحول اور گرد و پیش پر ضبط و تحمل، عالی ظرفی اور نسبت کا رنگ چڑھا ہوا تھا.


حضرت نے پنجاب کے متعدد اصلاحی و تبلیغی دورے کئے، آپ نے تقسیمِ ملک کا روح فرسا غیر مندمل زخم کو سہا جس کا اثر تادمِ حیات رہا، آپ تقسیمِ ملک کی پالیسی کے خلاف، اور اس نظریے میں مولانا حسین احمد مدنی کے ہمنوا تھے، مولانا مدنی،شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ اور حضرت شیخ نے باہمی مشورہ سے ملک ہندوستان کو ہی مسکن بنانے کا عزمِ مصمم کیا اور تمام مغربی یوپی والوں کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن گئے.

ملک کی تقسیم کے عملی نفاذ کے بعد آپ کے حلقہء ارادت سے متعلق تائبین و مخلصین کی کثیر تعداد نے پاکستان کو اپنا مستقر بنایا، بریں بنا آپ کے ارادت مند و عقیدت مندوں کے مطالبہ پر ہر سال پاکستان جاتے اور طالبین و منسلکین کا جمِ غفیر صحبت و زیارت سے مستفیض ہوتا.

حضرت شیخ پاکستان کی ترقی بلکہ عالمِ اسلام کو جدید ٹیکنالوجی میں آگے دیکھنا چاہتے تھے. اور ایسی خبریں جو اس موضوع سے متعلق ہوتی نہایت دلچسپی و دلجمعی سے سماعت کرتے اور کچھ تبصرہ بھی فرماتے.

زندگی کے آخری حصے میں پاکستان پہنچے اور مرضِ وفات میں مبتلا ہو گئے غشی طاری ہو گئی اور 16 اگست 1962 کو لاہور میں انتقال ہو گیا، باوجود ہندوستان کے اشتیاق و چاہت کے آپ کی جائے ولادت ہی مدفن بنی اور ڈھڈیاں میں آپ کو سپردِ خاک کر دیا گیا.

آپ کے فیض یافتگان میں وہ تمام نامور و چوٹی کے علماء تھے جو اپنی ذات میں خود انجمن تھے،دینی تحریکات کا روحِ رواں تھے اور آپ ان تحریکات کی سرپرستی فرما رہے تھے جن تبلیغی جماعت،جمعت علماء، ختمِ نبوت، مجلسِ احرار اور ردِ قادیانیت سرِ فہرست ہیں. 

آپ حضرت مولانا شاہ الیاس صاحب کاندھلوی کے اخلاص و عمل کے دل سے قدر دان تھے اور ان کا بلند کلمات سے ان کی مقبولیت و مرجعیت کا ذکر فرماتے تھے. 

اس فہرست میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری،مولانا حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی،مولانا منظور نعمانی، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی نام خاص طور پر قابلِ ذکر  ہیں. ان دنوں صرف خانقاہ رائے پور کا طوطی بولتا تھا.

آپ کی مجلس میں شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی، مولانا احمد علی لاہوری، بانی تبلیغ مولانا الیاس کاندھلوی ،مولانا یوسف کاندھلوی ،مولانا حسین احمد مدنی جیسے جید علماء جلوہ افروز ہوتے تھے.

یہی حضرات آپ کے معاصرین میں تھے،جن باہمی ربط و تعلق، آپسی میل ملاپ، ایک دوسرے کے تئیں ادب و احترام کا جذبہ ہم متأخرين کے لیے قابلِ صد احترام و لائقِ تقلید ہے.


از:محمد تعریف سلیم ندوی

نزیل مسجد الیاسی (فیروز پور نمک)

7-1-2021 بروز جمعرات

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے